Tuesday, May 13, 2014

Police encounter

http://adf.ly/HyMbi
http://adf.ly/Ks9qb
http://adf.ly/meBJh

لاہور(زاہد علی خان) کیا  پنجاب پولیس کو مبینہ مقابلوں کی اجازت دے دی گئی ہے یا ماتحت افسران اور اہلکار آئی جی پولیس کو ”اندھیرے“ میں رکھ کر ”کارروائی“ دکھا رہے ہیں، باخبر ذرائع کے مطابق گزشتہ تین سال کے دوران پنجاب میں مبینہ مقابلوں کے دوران 1210افراد مبینہ پولیس مقابلوں کے دوران مارے گئے اور ایسے مرنے والوں کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مبینہ طور پر زیر حراست تھے۔ ان مقابلوں کے دوران کئی پولیس اہلکار بھی جام شہادت نوش کر گئے اور زیادہ پولیس اہلکار ناکوں پر کھڑے ہوئے شہید ہو گئے ان پولیس اہلکاروں نے ناکہ پر جرائم کو روکنے کے لئے کوشش کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور میں اور بعض اہم اضلاع جہاں جرائم کی رفتار زیادہ ہے وہاں پر پولیس مقابلوں کے ماہر افسران کو تعینات کیا گیا ہے خاص طور پر سی آئی اے کے تھانوں اور انوسٹی گیشن سیل میں ماہر پولیس افسران اور اہلکار اب بھی موجود ہیں جو مبینہ مقابلوں کے ماہر جانے جاتے ہیں وہ سالہا سال سے پنجاب پولیس میں تعینات ہیں، عینی شاہدےن اور مرنے والوں کے ورثاءکے جانب سے دےے گئے ثبوتوں کے باوجود پولیس کسی بھی مقابلے کو جعلی قرار دینے پر اپنا موقف پیش کرتی ہے اسے پولیس افسروں کے خلاف ورثا مبینہ ثبوتوں مےں عدالتوں میں درجنوں پولیس افسروں کے خلاف مقدمات بھی درج کر وارکھے ہیں۔ ماضی میں کئی پولیس افسروں کو محکمانہ سزائےں بھی دی گئیں۔ معطل بھی ہوئے مگر بعدازاں یہ افسران بحال بھی ہو گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی اشتہاری خطرناک ملزم پولیس کی حراست میں ہیں، ذرائع کا کنا ہے کہ ایسے خطرناک ملزموں کو بھی جب چاہے پولیس ”پار“ کر سکتی ہے کیونکہ پولیس کے پاس ان کو مبینہ مقابلوں کے لئے کسی ہتھکنڈ بھی ہیں۔ اگر کوئی پولیس افسر کسی زیر حراست ملزم کو پار کر نا چاہیں تو اسے کر دیتی ہیں اگر پولیس افسر یہ کہے کہ وہ دونوں کو مقابلے میں ہلاک کر دیا اور دو بھاگ گئے، ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل یہ ملزم پولیس کے پاس ہی ہوتے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام نے خطرناک مجرموںکی فہرستیں بھی بنا رکھی ہیں۔ جن کی کب باری آئے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ وارداتوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے تو مقابلے شروع ہو جاتے ہیںتاکہ معاملات برابر کئے جا سکیں۔


No comments:

Post a Comment